رسائی کے لنکس

پاکستان: تقریباً 1,000 خواتین ’خاندانی غیرت‘ کے نام پر قتل


ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ خاندانی عزت و ناموس کے نام پر گزشتہ سال قتل کی گئی خواتین میں سے 595 پر ’’ناجائز تعلقات‘‘ کا الزام لگایا گیا جبکہ 219 کو مرضی کی شادی کرنے کی پاداش میں خاندان کے افراد نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

پاکستان میں انسانی حقوق کا دفاع کرنے والی ایک صف اول کی غیر سرکاری تنظیم نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 2011ء کے دوران خاندانی عزت و ناموس کے نام پر ملک میں کم از کم 943 خواتین کو قتل کیا گیا، جبکہ 701 نے خودکشی کرکے موت کو گلے لگایا جو اس رجحان میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے جمعرات کو اسلام آباد میں یہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے ملک میں انسانی حقوق کے حوالے سے عمومی اور بالخصوص بلوچستان، کراچی اور خیبر پختون خواہ کی صورت حال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے بہتری کے لیے کوئی نمایاں کوششیں نہیں کی گئیں۔

’’اچانک تشدد بھڑک اُٹھنے کے واقعات کے نتیجے میں کراچی میں سال کے دوران 1,715 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 173 افراد کو بلوچستان میں اغواء کرنے کے بعد ہلاک کیا گیا۔ ماورائے عدالت ہلاکتوں میں 517 وہ افراد شامل تھے جو ڈرون طیاروں کے حملے کے نتیجے میں مارے گئے۔‘‘

پاکستان میں گزشتہ سال کے دوران دہشت گردی کی کارروائیوں بشمول خودکش اور فرقہ وارانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 2,307 بتائی گئی ہے۔

ایچ آر سی پی نے اپنی رپورٹ میں 2011ء کے دوران جبری گمشدگی کے 62 نئے واقعات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان میں 35 افراد کو بلوچستان اور 20 کو سندھ سے غائب کیا گیا۔ ’’شہریوں کے غائب کرنے کے مقدمات کی سماعت (عدالت عظمٰی میں) سال بھر جاری رہی لیکن کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔‘‘

تنظیم کے شریک چیئرپرسن کامران عارف

تنظیم کے شریک چیئرپرسن کامران عارف

تنظیم کے شریک چیئرپرسن کامران عارف نے خواتین میں خودکشیوں کے رجحان میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے اس کے مخصوص اسباب پر خیال آرائی سے یہ کہہ کر گریز کیا کہ اصل حقائق جاننے کے لیے آج تک پاکستان میں اس حوالے سے کوئی مفصل تجزیہ نہیں کیا گیا ہے۔

’’یہ میں آپ کو کہہ دوں کہ یہ اعداد شمار نامکمل ہیں۔ یہ وہ واقعات ہیں جن کی تصدیق کی جاسکی ہے۔ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی کیونکہ بدنامی کے ڈر سے خاندان کے افراد عمومی طور پر ایسی اموات کو خودکشی کہہ کر درج نہیں کراتے۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے پارلیمان نے گزشتہ سال بھی نمایاں قوانین کی منظوری دی مگر ان پر موثر عملدرآمد کے بغیر نتائج کا حصول ممکن نہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کو مقام کار پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے قانون کی شقوں پر بہت سی وزارتوں نے عمل درآمد نہیں کیا جبکہ ملک بھر میں صرف تین اسپتالوں نے اس قانون کی توثیق کی۔

کمیشن کا کہنا ہے کہ 2010ء میں خاندانی عزت و ناموس کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کی تعداد 791 تھی۔

گزشتہ سال اس تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین میں 595 پر ’’ناجائز تعلقات‘‘ کا الزام لگایا گیا جبکہ 219 کو مرضی کی شادی کرنے کی پاداش میں خاندان کے افراد نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں ایچ آر سی پی کی سالانہ رپورٹ پر اپنا ردعمل بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں حکومت کے لیے بھی باعث تشویش ہیں۔

’’یہ اکا دکا واقعات جو ہوتے ہیں وہ بھی نہیں ہونے چاہیئں لیکن جس معاشرے میں شرح خواندگی انتہائی کم ہو، غربت بہت زیادہ ہو اور سماجی و ثقافتی روایات کو مذہبی اقدار کا رنگ دے کر ان پر عمل کیا جائے تو وہاں پر مشکلات بڑھتی ہیں۔‘‘

مگر اُنھوں نے اس تاثر کی نفی کی کہ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت اس معاملے پر توجہ نہیں دے رہی ہے۔

’’ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکومت نے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بھرپور قانون سازی کی ہے، اس لیے یہ کہنا کہ یہ چیلنج ہماری ترجیح نہیں زیادتی ہو گی۔‘‘

تنظیم کا کہنا ہے کہ 2011ء میں 16 پاکستانی صحافی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ صحافیوں کو بسا اوقات کئی ماہ تک تنخواہوں اور واجبات کی عدم ادائیگی کے باوجود اپنے فرائض سر انجام دینا پڑے۔

’’انھیں اس کے علاوہ ملازمتوں سے فوری اور اچانک نکالے جانے کے خطرے کا بھی سامنا رہا۔ صحافیوں کے علاوہ جن دیگر افراد کو اظہار رائے کی پاداش میں تشدد اور تشدد کی دھمکیوں کا سامنا تھا ان میں انسانی حقوق کے محافظین، سیاسی کارکن اور ترقی پسند مذہبی رہنما شامل تھے۔‘‘

پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے گزشتہ سال قوانین اور قانون سازی کے عمل پرعدم توجہی پر بھی ایچ آر سی پی نے اپنی رپورٹ میں تنقید کی ہے۔

’’2011ء کے دوران نئی قانون سازی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں تھی اور اس حوالے سے کچھ وجوہات عیاں تھیں جس میں اس کی بقا کی جنگ بھی شامل تھی۔ ‘‘

XS
SM
MD
LG