’غیرت کے نام پر قتل پاکستان پر ایک دھبہ‘

  • 19 جنوری 2016

آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی ہدایت کارہ شرمین عبید چنائے نے کہا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل میں معافی نہیں ہونی چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ پوری دنیا کی نظریں اس وقت پاکستان پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ غیرت کے نام قتل پاکستان پر ایک دھبہ ہے۔

شرمین عبید چنائے کی دوسری ستاویزی فلم ’اےگرل ان دا ریور‘ آسکر کے لیے نامزد ہوئی ہے اور یہ فلم پاکستان میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل پر بنائی گئی ہے۔

’آسکر سے زیادہ خوشی بِل پاس ہونے پر ہوگی‘

شرمین کی ’سیونگ فیس‘ کے لیے ایمی ایوارڈ

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شرمین عبید چنائے کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ وہ غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے کام کریں گے۔ اب یہ مسئلہ قومی سطح پر آ گیا ہے۔

شرمین چاہتی ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے سخت قوانین نافذ ہوں اور معافی کی گنجائش نہیں ملنی چاہیے۔

اُن کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کی نہ مذہب اجازت دیتا ہے اور نہ ہی یہ ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔ ’اسلام ایک امن پسند مذہب ہے جو عورت کو پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے تو ایسا مذہب کسی عورت کو قتل غیرت کے نام پر قتل کی اجازت کیسے دے گا؟

تصویر کے کاپی رائٹ bbc
Image caption شرمین عبید چنائے کی دوسری ستاویزی فلم ’اےگرل ان دا ریور‘ آسکر کے لیے نامزد ہوئی ہے

شرمین کے مطابق ایک چھوٹے سےگاؤں یا شہر میں کسی نے اپنی بیٹی، بہن اور ماں تک کا قتل کر دیا ہو لیکن وہ جیل نہ گیا ہو تو لوگ اسے جرم ہی نہیں سمجھیں گے اور یہ سوچ جنم لے گی کہ میں بھی کل اپنی بیٹی یا بہن کو ماردوں تو جیل نہیں جاؤں گا۔

’لوگوں کو جیل بھیجنا چاہیے تاکہ انھیں معلوم ہو کہ اگلی دفعہ میں نے یہ قدم اُٹھایا تو میں بھی جیل جاؤں گا۔‘

سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن صغریٰ امام نے غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل معافی قرار دینے کے لیے ایک بل پیش کیا تھا جس کو سینیٹ نے منظور کر لیا تاہم قومی اسمبلی میں یہ غیر موثر ہوگیا۔

شرمین عبید چنائے کافی پُرامید ہیں کہ یہ بل جلد پاس ہو جائے گا اور اُن کی خواہش ہے کہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اس قانون کو پاس کیا جائے۔

’جب آپ دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں کو معاف نہیں کر سکتے تو غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کو کیسے طرح معاف کر سکتے ہیں؟ یہ قتل غلطی سے تو نہیں ہوتے اس میں تو لوگوں کو باقاعدہ ڈھونڈا جاتا ہے اور بے دردی سے مار دیا جاتا ہے۔

شرمین دستاویزی فلم سازی کو ایکٹو ازم قرار دیتی ہیں اُن کے مطابق کسی بھی دستاویزی فلم بنانے والے کے موضوع کے چناؤ سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس حوالےسے سرگرمِ عمل ہے۔

’آپ ہزاروں موضوعات میں سے کوئی ایک خاص موضوع اس لیے چنتے ہیں کہ آپ لوگوں کا ذہن تبدیل کرنا چاہتا ہے یا پھر کوئی قانون لاگو کروانا چاہتے ہیں، میں خواتین اور بچوں کے موضوعات پر کام کرتی ہوں چوں کہ ہم پاکستان میں رہتے ہیں ہمیں اسے ایک بہتر ملک بنانا ہے اور اگر ہم نہیں بنائیں گے تو آگے آنے والی نسلیں ہمیں کوسیں گی۔‘

شرمین عبید اس وقت پاکستان کی پہلی اینیمیٹڈ فلم ’تین بہادر‘ کے دوسرے حصے پر کام کرنے کے ساتھ ایک کتاب بھی لکھ رہی ہیں۔

شرمین کے خیال میں غیر ملکی فلم سازوں کے برعکس ایک مقامی ہدایتکار پاکستان کے مسائل کو زیادہ بہتر طور پر اجاگر کر سکتا ہے کیوں کہ وہ یہاں کے مسائل سے زیادہ اچھے طریقے سے آگاہ ہوتا ہے اور وہ اپنی دستاویزی فلموں کی کامیابی کی وجہ اسی کو قرار دیتی ہیں۔

’میں یہاں رہتی ہوں، یہاں کے مسئلے جانتی ہوں، یہاں کی زبان بولتی ہوں، میرا اور میری ٹیم کا کچھ علاقوں میں آنا جانا آسان ہے، لوگ ہم پر کافی اعتماد بھی کرتے ہیں اور جب آپ کسی کا اعتماد جیت لیتے ہیں تو کبھی کبھی وہ آپ کو ایسی باتیں بھی بتا دیتے ہیں جو بعض اوقات اُن کے اپنے گھر والوں بھی نہیں جانتے۔‘

شرمین عبید کے مطابق آسکر ایوارڈ کی خصوصیات میں کہانی اور ٹیکنیکل مہارت بھی ہوتی ہے، اس کی ووٹنگ خفیہ ہوتی ہے اس لیے کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ کس کو کس فلم کے اندر کیا پسند آجائے۔

شرمین عبید 28 فروری کو منعقد ہونے والی آسکر ایوارڈ کی تقریب میں پاکستان کے فیشن ڈیزائنر کے ملبوسات کے علاوہ پاکستانی جیولری پہن کر شرکت کریں گی۔

شرمین کا کہنا ہے کہ وہ آسکر پہلے بھی جیت چکی ہیں مگر انھیں زیادہ خوشی تب ہوگی جب یہ غیرت کے قتل کے خلاف بِل قومی اسمبلی سے پاس ہو جائے گا۔

اسی بارے میں