غیرت کے نام پر خواتین کا قتل-توقیر ساجد کھرل

download-1

امنیسٹی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سال 2013 میں غیرت کے نام پر 869 قتل ہوئے، سال 2014 میں یہ تعداد 1000 تھی اور سال 2015 میں یہ تعداد بڑھ کر 1100 ہو گئی تھی۔قدامت پسندانہ اقدار سے بغاوت یا انحراف کرنے سے خواتین کو غیرت کے نام پر خاندان کے افراد کے ہاتھوں قتل کر دیا جاتا ہے

ضلع خانیوال کے نواحی چک نمبر 124 سیون ای آر میں محمد رمضان نے اپنی بیٹی کو ناجائز تعلقات کے شبہ میں قتل کر دیا۔21 سالہ نازیہ بی بی کی شادی 118/12 ایل کے محمد آفتاب سے ہوئی تھی۔ اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ مقتولہ کے پیرو نامی شخص کے ساتھ تعلقات تھے جس کا شک باپ کو گزرا اور اس نے بیٹی کو گولی مار دی۔باپ جائے وقوعہ سے فرار ہو گیا ہے تاہم پولیس تھانہ تلمبہ نے وقوعے کی ایف آئی آر مقتولہ کی ساس کی مدعیت میں درج کر کے ملزم کی تلاش شروع کر دی ہے۔

دوسری طرف لاہور میں 17 سالہ زینت بی بی کو اس کی ماں نے حسن خان سے پسند کی شادی کرنے پر زندہ جلا دیا۔زینت کی ماں اس کوگھر لے آئی تاکہ آبرو مند طریقہ سے بیاہ دیں۔ لیکن بدھ کے روز زینت بی بی کو زندہ جلا دیا گیا۔ہمارے ہاں تھوڑے تھوڑے وقفے بعد ایسی خبریں میڈیا میں گردش کرتی ہیں کہ باپ، بھائی یا ماں نے بیٹی کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔اس ساری صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں غیرت کے نام پہ قتل کرنے سے کسی الزام کی تحقیق کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی۔۔ جن کے تصورات قارئین کی نظر ہیں۔جنگ سے وابستہ معروف صحافی مبشر زیدی کہتے ہیں کہ افراد کو نہیں معاشرے کو نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے۔ہیرلڈ کے تازہ شمارے میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اعداد وشمار کے مطابق دو سال میں تین سو لڑکیوں کو زندہ جلایا جا چکا ہے جبکہ غیرت کے نام پر دو ہزار قتل الگ ہوئے ہیں۔خاندانی عزت و ناموس اور ناجائز تعلقات کے الزام میں سالانہ چھ سو جبکہ مرضی کی شادی کرنے کی پاداش میں لگ بھگ دو سو افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔

عورت فانڈیشن کے پروگرام آفیسرانجم رضا کہتے ہیں کہ یہ ایک غیر قانونی و غیر انسانی عمل ہے۔ کوئی مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کیونکہ ایک فرد کو شرعی و قانونی طور پر اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔سماجی کارکن فراز احمد کا کہنا ہے کہ ہم بحثیت قوم بے حس اور انفرادی طور پر غیرت مند ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں غیرت صرف لڑکیوں کیلئے دکھائی جاتی ہے اور مردوں کی جان بچ جاتی ہے۔ماہر نفسیات ڈاکٹر ماریہ کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ عورت کو مرد کے مقابلہ میں ہمیشہ کم تر سمجھا جاتا ہے، ایسے محرکات میں بہت سے نفسیاتی پہلو اور وجوہات ہیں جن میں سے ایک فیملی سسٹم ہے۔146مرد جس خاندان میں پروان چڑھتا ہے اگر ماحول ایسا ہو کہ جہاں عورت کو کم تر سمجھا جائے تو وہاں ایسے واقعات کے ہونے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ڈاکٹر سامیہ کہتی ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے جس میں معافی کی گنجائش نہیں ملنی چاہیے۔ غیرت کے نام پر عورتوں کو قتل کرنا سراسر ناجائز ہے۔146اسلام ایک امن پسند مذہب ہے جو عورت کو پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے تو ایسا مذہب کسی عورت کو غیرت کے نام پر قتل کی اجازت کیسے دے گا؟146ڈاکٹر سامیہ غیرت کے نام پر قتل کی بنیادی وجہ بدترین غصے کو سمجھتی ہیں اور یہی غصہ جنونیت کا سبب بن جاتا ہے جس کی وجہ سے ایسے نفسیاتی امراض جنم لیتے ہیں جو اس قسم کے گھنانے واقعات کا باعث بنتے ہیں۔ڈاکٹر فخر عباس کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں عورت کو مرد کے مساوی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ جائز جنسی تعلق اور اپنی مرضی کی شادی کو بھی برا سمجھا جاتا ہے۔146عدالتی نظام سست ہونے کی وجہ سے مرد کو اپنے بری ہو جانے کی امید ہوتی ہے شاید اس لئے بھی وہ دیدہ دلیری سے قتل کر دیتا ہے۔ عورت گناہگار ہو بھی تو اس کی سزا کا تعین فرد واحد کی بجائے عدالت کو کرنا چاہیے۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر محمد امیر کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ عورت کو مرد کے مقابلے میں ہمیشہ کم تر سمجھا جاتا ہے ایسے محرکات میں بہت سے نفسیاتی پہلو اور وجوہات ہیں۔ماہر قانون میاں اخلاق ٹو ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اگر بھائی اپنی بہن کو غیرت کے نام پر قتل کر دیتا ہے تو اس کے والدین جو مقتولہ کے قانونی وارث ہیں اپنے قاتل بیٹے کو معاف کر سکتے ہیں۔ شریعت کے مطابق یہ ظلم و زیادتی ہے جب شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی تو قانون اس کی اجازت کسے دے سکتا ہے غیرت کے نام قتل پر مدعی خود ریاست کو بننا چاہئے۔146اس عمل کا سب سے بڑا عیب ہی یہی ہے کہ مقتول کے وارثین مدعی بن جاتے ہیں اور معاملہ کو ختم کر دیا جاتا ہے۔146ضرورت اس امر کی ہے کہ باریک بینی سے ان وجوہات کے جائزہ لیا جائے جن کی وجہ سے غیرت جیسے پاکیزہ جذبے کی افراطی شکل ہمارے معاشرے میں پروان چڑھ رہی ہے تاکہ آئندہ کوئی نازیہ یا زینت اس طرح سے غیرت کے نام پر قتل نہ ہوں۔تمام سیاسی جماعتو ں کواپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مل کر قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کا سدباب کیا جا سکے۔

توقیر کھرل نوجوان صحافی ہیں اور ملکی بیشتر روزناموں میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ سُجاگ کے ل ہفتہ وار فیچر لکھتے ہیں اور اپنی تحریروں میں عام آدمی اور اس کے مسائل پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ ٹویٹر اور ای میل پر ان سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔

Comments

Related posts

Leave a Comment