Home / Columns / Articles / غیرت کے نام پر سفاکانہ قتل تحریر:نازشاہ… ممبر پارلیمنٹ بریڈفورڈ

غیرت کے نام پر سفاکانہ قتل تحریر:نازشاہ… ممبر پارلیمنٹ بریڈفورڈ

جمعہ 22جولائی کو شام 6بجے مجھے ایک ٹیکسٹ میسج موصول ہوا جو کچھ اس طرح سے تھامعلوم نہیں کہ آپ کو بریڈفورڈ کی ایک لڑکی کی حال ہی میں ہونے والی موت کی خبر ملی ہے یا نہیں۔ صرف ایک شیعہ سے شادی کرنے کی وجہ سے اس کا قتل کر دیا گیا۔ نام نہاد غیرت کے نام پر کئے جانے والے قتل اب عام ہوتے جا رہے ہیں اور اس سلسلے میں پیش رفت کی ضرورت ہے۔ اگر آپ اس معاملے میں ملوث نہیں ہونا چاہتی تو مجھے ان لوگوں کے بارے میں بتائیں جو کہ کچھ کر سکتے ہیں۔ سامعہ شاہد کو نہایت بے دردی سے قتل کیا گیا اور اس میں عزت یا غیرت کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس نوعیت کے جرائم کے محرکات پر غورکریں تو پتہ چلتا ہے کہ ایسے جرائم صرف اپنا کنٹرول بنائے رکھنے کیلئے کئے جاتے ہیں۔ عمومی طور پر ایسے جرائم کا محرک عورت کے رویے کی وجہ سے مرد کی بے عزتی ہوتا ہے۔اگرچہ بریڈ فورڈ کی اس لڑکی کا باپ اور سابقہ شوہر حوالات میں ہیں تاہم اس آرٹیکل کا مقصد مقدمے کی قانونی کارروائی کو زیر بحث لانا نہیں ہے۔نہ ہی ہمیں اس مسئلے پر زیادہ بحث کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے کئی پہلو ممنوع یا لامحدود نوعیت کے ہیں۔ میرے نزدیک اس المیے کی وجہ سے مختلف سطحوں پر کئی خدشات سامنے آئے ہیں اور میں ان کی وضاحت کرنے کی پوری کوشش کروں گی۔ مردانہ برتری کسی نہ کسی حد تک ہر کمیونٹی میں پائی جاتی ہے۔ عورتوں پر تشدد کی کوئی صورت ہر کمیونٹی میں موجود ہے۔ بنیادی طور پر ہمیں یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ عورتوں پر کنٹرول رکھنے اور خود کو قوی ثابت کرنے میں سب ایک ہی جھنڈے تلے جمع ہیں۔ طاقت اور کنٹرول کی خواہش بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب اور طبقہ کے ایک ہی جیسی ہے۔ کمیونٹی اور کلچر ایک سیال کی طرح ہیں اور انفرادی طور پر ایک وقت میں ہم ایک سے زیادہ کمیونٹیز اور کلچرز کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ایک برٹش مسلمان عورت، ایک نسوانیت کی علمبردار، ایک ماں اور ایک پاکستانی بیک گرائونڈ رکھنے والی ایم پی کی حیثیت سے میں بے شمار تجربات سے محظوظ ہوتی ہوں جو کہ میرے لئے ایک بڑی نعمت ہیں۔ ہماری اجتماعی اقدار ہمیں ہر قسم کی تفریق سے بالا تر کرتی ہیں۔میں پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرکے اتوار کی شام کو چکن پراٹھے اور اچار بنا کر اپنے بچوں کے ساتھ کھانے میں یکساں پرسکون ہوں۔ لیکن میرے آج تک کا سفر ہر گز آرام دہ نہیں تھا۔ میرا تعلق جس کمیونٹی سے ہے وہاں عزت یا غیرت کا تصور سب کو اپنی پسند کے مطابق ایک ہی چھڑی سے ہانکنے کے مترادف ہے۔ خصوصاً خواتین کے معاملے میں اچھے حالات میں ایک چیلنج اور بدتر حالات میں جان لیوا ہوسکتا ہے۔اس تصور کی موجودگی کمیونٹی اور خصوصاً خواتین کی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔اس سب کا پسِ منظر بیک وقت متعدد شناختیں اور مختلف کلچرز کے ساتھ تعلق بھی ہے جس کی وجہ سے لاتعداد تضادات جنم لیتےہیں۔ یہ تضاد تب ہی شروع ہوتا ہے جب ہم اپنی زندگی تو اپنی مرضی اور خوشی سے اپنی تمام قابلیت کو استعمال کرتے ہوئے گزارنا چاہتے ہیں لیکن خواتین کی باری آنے پر ان کی مرضی اور خوشی کو عزت کے ترازو میں رکھا جاتا ہے اور جب کوئی اس ڈھانچے کو توڑنے کی کوشش کرے تو اس قسم کے جرائم جنم لیتے ہیں۔ہر نئی ٹریجڈی کے بعد جنم لینے والے چیلنج اور بحث و مباحثہ کے بعد لوگوں کی سوچ ترقی کرتی ہے اور نئے سبق سیکھے جاتے ہیں۔ یہ کیس بھی دوسروں سے مختلف نہیں ہے اگرچہ میں امید رکھتی ہوں کہ اس کے بعد کوئی بھی سامعہ نہ بنے۔ لیکن حقیقت یہ ہے میں اس بارے میں فی الحال پراعتماد نہیں ہوں لیکن مجھے علم ہے کہ کمیونٹیز اس مسئلے پر غور کر رہی ہیں۔ جب میں سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز اور اخبارات کے تبصرے پڑھتی ہوں تو مجھے امید کی کرن نظر آتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے علم میں اضافہ کر رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم اپنی خواتین اور لڑکیوں کو یہ حق دینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی پوری قابلیت سے بہترین روپ میں سامنے آئیں تو ہمیں شدید محنت کرنی پڑے گی کیونکہ خواتین کو بااختیار بنانے سے ہی ہم ایک مکمل کمیونٹی بنا سکتے ہیں اور جب تک ہم کمیونٹی میں خواتین کے کردار کو اہمیت نہیں دیتے ہم بطور انسان اور بطور کمیونٹی فروغ نہیں پا سکتے۔ ایک لچک دار اور ترقی یافتہ کمیونٹی بنانے کیلئے سب کا ساتھ مل کر کام کرنا ضروری ہے۔ ہمیں لوگوں کو اپنا آپ منوانے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے میں پورا تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔جو لوگ رسک پر ہیں ہمیں ان کو حتی الامکان سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی کمیونٹی کے بعد ہمارے لئے گورنمنٹ اور لیڈر شپ کے مسائل کا سامنا ہے۔ کمیونٹی آرگنائزیشنز کو بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے لوگوں کے لئے اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی جگہ بنانی چاہئے اور جہاں تک میرا تعلق ہے میں حالیہ جانی نقصان کے بعد اس سلسلے میں زیادہ جانکاری کی فراہمی اور قانون میں ممکنہ تبدیلی لانے کیلئے اپنا کردار ادا کروں گی۔ فی الوقت میں کہنا چاہتی ہوں کہ کمیونٹی کے پاس اپنے مسائل کا حل ہے اور ہمیں اس کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کی ہر سامعہ کو آپ کی سپورٹ کی ضرورت ہے تاکہ کبھی کوئی اور لڑکی سامعہ نہ بنے۔ میری اس آرٹیکل کے قارئین سے التماس ہے کہ وہ اس کو پڑھنے کے بعد کم از کم ایک اور فرد سے اس بارے میں بات کریں اور اس آرٹیکل کو شیئر کریں کیونکہ دوسروں کی مدد کرنے سے متعلق معلومات ان لوگوں کے لئے نہایت کارآمد ہوسکتی ہیں اور اس وقت رسک میں ہیں۔ اگر آپ کسی رس سے دوچار فرد کو جانتے ہیں تو ان کی مناسب مدد حاصل کرنے میں حوصلہ افزائی کریں۔ اگر آپ یا آپ کا کوئی عزیز سفر پر جا رہا ہے تو بیرون ملک اپنی رہائش کے انتظامات اور اپنے سفر سے متعلق حتی الامکان معلومات کسی باعتبار فرد کے حوالے کرکے جائیں۔سفر کرنے سے پہلے یقین دہانی کرلیں کہ آپ کے پاس پاسپورٹ نمبر اور کونسلر کی تفصیلات وغیرہ موجود ہیں۔ اگر آپ کو کسی عزیز یا فیملی کے بارے میں خدشہ ہے کہ ان کو کسی قسم کا خطرہ لاحق ہے تو اس کے لئے فارن آفس سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔اپنی کمیونٹی کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے اس لئے ہمیں مل جل کر برداشت اور اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسی پر ہمارے مستقبل کا دارومدار ہے۔

About Tanveer Khatana

Check Also

بے موسم چھٹیاں

تحریر : محمد ارشد قریشی دنیا بھر میں موسم کی تبدیلی شروع ہوچکی ہے جس …