پاکستان 'غیرت' کے نام پر قتل روکے سنیے / اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نوی پلے نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ نام نہاد غیرت کے نام پر ہونے والی ہلاکتوں کے سلسلے کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات اٹھائے۔ انہوں نے اپنے بیان میں پچیس سالہ حاملہ خاتون فرزانہ کے قتل کو بہیمانہ اور وہشت ناک قرار دیا۔ فرزانہ پروین کو لاہور ہائی کورٹ کے دروازے پر سنگباری کر کے اس لیے ہلاک کر دیا گیا کیونکہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔ سٹیفن ڈوجاحک اقوام متحدہ کے ترجمان ہیں۔ 'ہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سال سینکڑوں خواتین کو اس لیے قتل کر دیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف اپنی پسند سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے پاکستانی حکومت سے کہا ہے کہ وہ نام نہاد غیرت کے نام پر غارت گیری اور خواتین پر جبر کے دوسرے جرائم کے خلاف فوری اقدمات اٹھائے۔ فرزانہ پروین کو عدالت میں پیشی پر قتل کرنے کا مطلب ہے ریاست ایک ایسے فرد کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی زندگی کوپہلے ہی خطرہ لاحق تھا۔' نوی پلے نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو شاذونادر ہی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے، اور اگر ایسا کیا بھی جائے تو سزا بہت معمولی دی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے شعبہ انسانی حقوق کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے۔