غیرت کے نام پر قتل، ترامیم اور اعتراضات ایک قانونی جائزہ – عبداللہ فیضی 12/10/201613/10/2016 0 تبصرے 3141 مناظر ویب ڈیسک عبداللہ فیضی معاشرے میں پھیلے فرسودہ رسم و رواج اور جہالت کی وجہ سے ایک محتاط اندازے کےمطابق پاکستان میں سالانہ اوسطا ایک ہزار افراد غیرت کے نام پر قتل کر دیـے جاتے ہیں۔ اسی حوالے سے گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی نےضابطہ فوجداری اور تعزیرات پاکستان میں ترمیمی بل متفقہ طور پر منظور کیا۔ حالیہ ترمیم کے تحت، غیرت کے نام پر قتل کی سزا 10 سال سے بڑھا کر 25 سال جبکہ مجرم کو ورثا کی جانب سے قصاص معاف کرنے کی صورت میں بھی ناقابل تصفیہ اور موجب تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے۔ جہاں اس بل کو اکثریتی جماعتوں کی تائید حاصل ہے وہیں بعض حلقوں کی طرف سے اس پر تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔\n\nاب تک سامنے آنے والے اعتراضات میں ترمیمی بل کو غیر اسلامی قرار دیا گیا ہے جبکہ دیگر اعتراضات میں اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت نہ کرنا اور ترمیم کو اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے دباؤ کا نتیجہ قرار دینا شامل ہے۔\n\nجہاں تک ترمیمی بل کے غیر اسلامی ہونے کا تعلق ہے تو یہ بحث زیر نظر مضمون کے آخر تک واضح ہو جائے گی، جبکہ یہ سمجھنا کہ ترمیمی بل کوئی نیا قانون ہے تو یہ بالکل غلط ہے۔ اس حوالے سے حقیقت یہ ہے کہ تعزیرات پاکستان میں غیرت کے نام پرقتل کی دفعات کے حوالے سے ترامیم سنہ 2004 میں مشرف دور حکومت میں جب دینی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل متحدہ مجلس عمل بھی حکومت کا حصہ تھی، تب پہلی دفعہ شامل کی گئی تھیں اور اس سے اگلے سال جب اس وقت کی اپوزیشن نے غیرت کے نام پر قتل کو غیراسلامی قرار دینے کا بل اسمبلی میں پیش کیا تو اسے ق لیگ کی حکومت نے مسترد کردیا تھا۔ حالیہ ترمیم دراصل پہلے سے موجود قانون کو مؤثر اور سخت بنانے کی ایک کوشش ہے۔\n\nجہاں تک اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت کا سوال ہے تو یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کے قانون کی رو سے نظریاتی کونسل کی حیثیت ایک مشاورتی ادارے کی ہے جو صرف اس وقت مشاورت فراہم کرتا ہے جب حکومت وقت اس سے مشاورت طلب کرے اور مشاورت طلب کرنا یا نہ کرنا یہ کلی طور پر حکومت وقت کا صوابدیدی اختیار ہے۔\n\nخبر کے مطابق مذکورہ ترمیمی بل گزشتہ ڈھائی سال سے التوا میں تھا جبکہ مولانا فضل الرحمان صاحب جو خود ایک مذہبی جماعت کے سربراہ اور حکومت کے اتحادی بھِی ہیں اور اس ترمیمی بل کی کمیٹی کا بھی حصہ تھے، اس دوران خاموش رہے اور نہ ہی کسی اور رکن قومی اسمبلی نے مذکورہ تمام عرصے میں اس مسئلے کو اٹھایا۔\n\nجہاں تک اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے دباؤ کا سوال ہے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان نے 1996ء میں خواتین کے حقوق کے بین الاقوامی کنونشن کی توثیق کی ہوئی ہے جس کی رو سے ہم تمام امتیازی قوانین کے خاتمے کے پابند ہیں اور بین الاقوامی ادارے اس حوالے سے ہر رکن ملک پر دباؤ ڈالتے رہتے ہیں۔\n\nاب اگر بل کے مندرجات کا سنہ 2004ء کی پرانی ترمیم کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوگی کہ حالیہ ترمیم میں ماسوائے بعض قانونی سقم دور کرنے اور سزا کو مزید سخت کرنے کے کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی گئی۔ ترمیمی بل میں کل 6 ترامیم تعزیرات پاکستان میں اور اس حوالے سے 2 ترامیم ضابطہ فوجداری میں متعارف کروائی گئی ہیں۔\n\nپہلی ترمیم بل کے نام پر مشتمل ہے جبکہ دوسری ترمیم تعزیرات پاکستان کی دفعہ 299 سے متعلق ہے جس میں قانونی تعریفات میں ایک مزید اضافہ ”فساد فی الارض“ کی تعریف کے زمرے میں کیا گیا ہے اور اس کے اندر غیرت کے نام پر قتل کو بھی شامل کیا گیا ہے، یاد رہے کہ سنہ 2004ء کی ترمیم میں بھی غیرت کے نام پر قتل کو اسی زمرے میں شامل کیا گیا تھا۔\nاس حوالے سے تیسری ترمیم دفعہ 302 کی ذیلی دفعات کے بعد ایک مزید شرط کے اضافے کی صورت میں شامل کی گئی ہے جہاں پر فساد فی الارض کی صورت میں اس کی ذیلی دفعہ (اے) اور (بی) جو کہ جرم کی صورت میں بالترتیب قصاص لینے اور تعزیری سزا دینے سے متعلق ہیں، کو مؤثر تسلیم کیا گیا ہے۔\nچوتھی ترمیم دفعہ 309 میں کی گئی ہے جہاں پر اس کی ذیلی دفعہ نمبر 1 میں ایک اضافی شرط کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے مطابق فساد فی الارض کی صورت میں قصاص کے خاتمے کے حوالے سے دفعہ 311 کی طرف مراجعت کا کہا گیا ہے۔\nپانچویں ترمیم دفعہ 310 ایک اضافی شرط کی صورت میں شامل کی گئی ہے جہاں فساد فی الارض کی صورت میں قصاص کی معافی کے ضمن میں دفعہ ۳۱۱ کی طرف مراجعت کا کہا گیا ہے۔\nترمیمی بل کی چھٹی ترمیم دفعہ 311 میں کی گئی ہے جہاں پہلے غیرت کے نام پر قتل کی سزا جو کہ 10 سال تھی کو نئی ترمیم میں بڑھا کر 25 سال کر دیا گیا ہے۔\nجبکہ آخری دو ترامیم ضابطہ فوجداری کی دفعات 338 اور 345 میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 310 اور 311 کی مناسبت سے ترامیم شامل ہیں اور اس بابت جرم کو ناقابل معافی تسلیم کیا گیا ہے۔\n\nترامیم کے اجمالی جائزے کے بعد اگرغیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر کے حوالے سے بات کی جائے تو سب سے پہلے یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ انسانی جان کی حرمت اور قدر و قیمت کی تعلیمات قرآن و حدیث میں جا بجا ہیں جن سے اغراض ممکن نہیں۔\n\nولی یا وارث کے قاتل ہونے کی صورت میں فقہاء کی اکثریت کے نزدیک انہیں قصاصا قتل کرنے کے حوالے سے مختلف آراء موجود ہیں۔ مالکی علماء کے ہاں اس کا جواز ملتا ہے جبکہ احناف اور اکثریت فقہا عدم جواز کے قائِل ہیں لہذا اس حوالے سے کوئی متعین رائے مستند علماء ہی بیان کر سکتے ہیں۔ ابن ماجہ کی روایت کے مطابق حظرت عمر رضی اللہ عنہ نے بنو مدلج کے ایک شخص سے اس کے بیٹے کو قتل کرنے پر 100 اونٹ دیت وصول کی تھی۔ دوسری طرف فساد فی الارض کے باب میں حاکم وقت یا عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ حدود اللہ کے علاوہ وہ جرائم جن کا ذکر قرآن و سنت میں نہیں ہے، کے حوالے سے تعزیرا سزا دے سکتی ہے جس میں تادیبی سزا سے لے کر سزائے موت تک شامل ہے۔\n\nیہاں یہ بات ذکر کرنا دلچسپی خالی نہ ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے دور میں غیرت کے نام پر قتل (معروف معنی میں جیسا کہ مرضی کی شادی کی صورت میں اشتعال میں آکر قتل کرنا‏) کا کوئی بھی مستند واقعہ نہیں ملتا۔ خلفائے راشدین کے عہد میں بھی ایسا کوئی مشہور واقعہ نہیں ہے۔ اس سے یہ بات کافی حد تک واضح ہوتی ہے کہ یہ ناسور مسلمانوں میں دوسری اقوام کے ساتھ تعامل کے نتیجے میں پیدا ہوا اور اس حوالے سے خاصے تحقیقی مقالے بھی موجود ہیں۔\n\nپاکستان اور حالیہ قانونی ترمیم کے تناظر میں پاکستان علماء کونسل اور سنی اتحاد کونسل نے اپنے فتاوی میں غیرت کے نام پر قتل کو ناجائز قرار دیا ہے اور اس حوالے سے قانون سازی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ دیگر اسلامی ممالک میں اگر دیکھا جائے تو ایران، مصر اور اردن میں فساد فی الارض اور غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے سزائیں موجود ہیں۔\n\nضرورت اس امر کی ہے کہ ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کے لیے کم از کم انسانی المیوں کے حوالے سے سیاست سے بالاتر ہو کر مؤثر قانون سازی کی جائے، اس حوالے سے مذہبی اور غیر مذہبی جماعتوں کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔