۲۸۔ غیرت کے نام پر قتل Dr. Shehzad Saleem اسلام اور خواتین: حقائق اور غلط فہمیاں غیرت کے نام پر قتل اسلام کے روشن چہرے پر ایک بد نما داغ بن چکا ہے۔ جنون کی کیفیت میں بعض مرد حضرات اپنی قریبی رشتہ دار خواتین جیسے بہن، بیٹی اور بیوی کو پسند کی شادی کرنے یا کسی شخص کے ساتھ فحاشی کرنے اور غلط تعلقات قائم کرنے کے شبہ میں قتل کر دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں درج ذیل باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے: ۱۔اسلام نے کسی شخص کوانفرادی طورپریہ حق نہیں دیا کہ وہ ان سزاؤں کا نفاذ کرے جو اسلام نے مقرر کی ہیں۔ اس معاملے میں کوئی شخص قانون کو ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ اگر یہ سزائیں دینے کا کوئی حق رکھتا ہے تو وہ حکومت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور میں ایک مشہور صحابی حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوسرزنش کی کہ ایک شوہر کسی ایسے شخص کو قتل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا جسے وہ اپنی بیوی کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھے۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کو بتایا کہ وہ اس سے زیادہ غیرت مند ہیں اور اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ غیرت مند ہے۴۰؂ ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ غیرت اپنی جگہ لیکن کوئی انسان بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ سزائیں دینے کے لیے اسلام کا بتایا ہوا صحیح طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ ۲۔قرآن مجید کے مطابق موت کی سزا صرف دو ہی صورتوں میں دی جاسکتی ہے: ایک اس صورت میں جب کسی نے کسی دوسرے کو جان سے مار دیا ہو۔ دوسرے اس صورت میں جب کوئی شخص معاشرے میں بدامنی اور فساد پھیلانے کا مرتکب ہوا ہو۔ کسی اور جرم کی سزا موت نہیں ہے۔ قرآن مجید اس معاملے میں بہت واضح ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا. (المائدہ ۵: ۳۲) ’’جس کسی نے کسی جان کو قتل کیا بغیر اس کے کہ اس نے کسی دوسرے کو قتل کیا ہو، تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کیا۔‘‘ ۳۔تیسری اہم بات یہ ہے کہ اگر کوئی نیک اور پاک دامن مرد یا عورت زنا کا ارتکاب کرتا یا کرتی ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کے جرم کو چھپانے کی ہدایت کی ہے۔ اسلام کسی پاک دامن انسان کی رسوائی نہیں چاہتا اور اگرجذبات میں آکر اس سے کوئی غلطی ہوجائے تو اسے سزاسے بچانا چاہتا ہے۔ البتہ کوئی انسان اگر بدکاری کو اپنا شیوہ بنا لے تو ایسے شخص کو ضرور سزا ملنی چاہیے۔ اگر کسی پاک دامن شخص سے یہ شنیع فعل سرزد ہوجائے تو اسے یہ نظر انداز کردینا چاہیے۔ چنانچہ اسی طرح کے ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا: لَوْ سَتَرْتَہُ بِرِدَاءِکَ لَکَانَ خَیْرًا لَکَ. (موطا، رقم۱۴۹۹) ’’اگر تم نے اس آدمی کا جرم چھپایا ہوتا تو تمھارے لیے بہتر ہوتا۔ ‘‘ _____ ۴۰؂ بخاری، رقم ۶۴۵۴۔ تدبر قرآن ۔ امین احسن اصلاحی اس وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ فرض کیا کہ جس کسی نے کسی کو قتل کیا بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا ملک میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سب کو قتل کیا اور جس نے اس کو بچایا تو گویا سب کو بچایا اور ہمارے رسول ان کے پاس واضح احکام لے کر آئے لیکن اس کے باوجود ان میں بہت سے ہیں جو زیادتیاں کرتے ہیں۔ البیان ۔ جاوید احمد غامدی (انسان کی) یہی (سرکشی) ہے جس کی وجہ سے ہم نے (موسیٰ کو شریعت دی تو اُس میں) بنی اسرائیل پربھی فرض کردیا کہ جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، اِس کے بغیر کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں کوئی فساد برپا کیا ہو تو اُس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک انسان کو زندگی بخشی، اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔ (پھر یہی نہیں، اِس کے ساتھ) یہ بھی حقیقت ہے کہ (اِن پر اتمام حجت کے لیے) ہمارے پیغمبر اِن کے پاس نہایت واضح نشانیاں لے کر آئے، لیکن اِس کے باوجود اِن میں سے بہت سے ہیں جو زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں۔