غیرت کے نام پر قتل، سنگین جرم؟ تحریر : ڈاکٹر ایم عبداللہ تبسم گزشتہ کچھ روز سے پاکستان میں غیرت کے نام پر قندیل بلوچ اور اب جہلم میں سامیعہ کی اور اس سے قبل کبھی مری میں عنبرین تو کبھی لاہور کی چونگی امرسدھو کی زینت کو کورٹ میرج کرنے پر اہل خانہ نے بہانے سے گھر بلوا کر تشدد کے بعد زندہ جلا دیا کچھ عرصہ قبل شرمین عبید چنائے کی فلم کی رونمائی پر وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کا عزم کہ غیرت کے نام پر سنگین اور قابل نفرین وارداتوں کو روکنے کے لئے حکومت پاکستان سے جو بھی ہو سکاکرے گی ،معاشرے میں اسلامی تعلیمات سے متصادم جاہلانہ رسومات کے خاتمے کی جانب انتہائی مستحسن قدم ہے ،جو جینا جلدی ا’ٹھا لیا جائے اتنا ہی بہتر ہے غیرت کے نام پر عورتوں اور مردوں کے قتل کے لئے مختلف علاقوں میں مختلف اصطلاحیتں گھڑی ھئی ہیں جن میں معروف کاروکاری ہے یہ فعل بدکاری کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے کار مرد اور کاری عورت کے لئے بولا جاتا ہے ،لیکن یہ اس کا زیادہ تر نشانہ عورتیں ہی ہوتی ہیں کیونکہ وہ آسان اور کمزور ہدف ہیں ،عام طور پر کسی کو کوری یا کارو قرار دینے کے لئے اس کا کسی غیر اخلاقی عمل میں ملوث ہو نا ضروری نہیں ،محض شک و شبہ یا الزام ہی کافی ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ زمین یا جائیداد کے ھق سے محروم کرنے یا کسی سے بھی اپنا ذاتی انتقام لینے کے لئے بھی ایسا کیا جاتا ہے ،کسی عورت کو کاری قرار دے دیا جاتا ہے تو اس کی برادری کے لوگ از خود یہ اختیار حاصل کر لیتے ہیں کہ وہ اپنی عزت کی بحالی کے لئے غیرت کا مظاہرہ کرے اور اس عورت اور اس کے ساتھ ملوث مرد کو چائے وہ ملوث ہے یا نہیں قتل کر دیں ،غیرت کے نام پر قتل کے خلاف انسانی حقوق کی عالمی اور قومی تنظیمں عرصہ دراز سے سرگرم ہیں ،قانون میں غیرت کے نام پر قتل کو’’قتل‘‘ہی قرار دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ نے اس حوالے سے بل بھی منظور کر رکھا ہے ،پھر حدود آرڈینس بھی موجود ہے جس کے تحت سزا دینے کا اختیار صرف ریاست اور عدلیہ کو ہے لیکن سماجی ،معاشی اور سیاسی مصلحتوں کے شکار معاشرے میں بین الاقوامی قوانین پوری طرح عمل نہیں ہو پاتا ہے ،قدامت پرست اور اسلامی تعلیمات سے نا آشنا طبقے بھی عورت کو اپی ’’پراپرٹی ‘‘ کا درجہ دیتے ہیں ان قوانین پر عمل درآمد نہیں ہونے دیتے ہیں ،اسلام نے باپ کی کی جائیداد میں بیٹی کو بیٹے کے مقابلے میں نصف حصے کا وارث قرار دیا ہے مگر بیٹی اس حق کے لئے اصرار نہیں کرتی ،اگر کرے تو جہالت ذدہ معاشرے میں مردوں کی غیرت جاگ ا’ٹھتی ہے اور وہ اسے کوئی الزام لگا کر جان سے مار دیتے ہیں یا پھر کوئی ڈرامہ رچا کر خودکشی یا کسی حادثے میں مارے جانے کا رچا دیا جاتا ہے ،راقم کی ریسرچ کے مطابق 1998ء سے لیکر 2004ء تک0 600عورتوں کو اور مرددوں کو کاروکاری غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ان میں سے 3700عورتیں جبکہ 2300کے قریب مرد تھے ،عدالتوں میں صرف351مقدمات کے چالان پیش ہوئے ،قاتل برادری کے ہی تھے ایسے مواقع پر عموما مدعی اور مدعا علیہان میں مصالحت ہو جاتی ہے ،اور مرنے والے کے خون ناحق کا کوئی حساب نہیں لیا جاتا ،قتل ناحق کی ایسی وارداتوں میں پنجاب پہلے نمبر پر ہے ،اس کے بعد سندھ ،خیبر پختون خوا اور بلوچستان کا نمبر آتا ہے ،غیرت کے نام پر قتل ،عام قتل نہیں ہے بلکہ ایک سنگین جرم ہے اس معاملے پر معاشرے کی ذہنیت تبدیل کرنا ہو گی ۔ اسلام میں خواتین کے حقوق اور ناموس کے تحفظ کی سب سے زیادہ ضمانت دیتا ہے اس ھوالے سے خواتین کے حقوق مردوں کے مساوی ہیں ،حضورصلے اللہ علیہ والہ وسلم نے اسرشاد فرمایا کہ سب دے زیادہ عزت دار شخص وہ ہے جو خواتین کے ساتھ عزت سے پیش آتا ہے‘‘ عوام میں خواتین کے حقوق کو بیدار کرنے کے لئے مختلف پلیٹ فارمز پر اس مسئلے کو اٹھانے کی ضرورت ہے ،اسلامی تاریخ میں بہت سی خواتین صحابیات ،مفسرین قرآن اوررشد و ہدایت کے بلند مقامات پر فائز رہی ہیں اور آج بھی سیاست ،ادب ،میعشیت،صھافت ،وکالت،درس وتدریس،اوع علم دانش کے مختلف شعبوں میں نام ور حیثیتوں میں موجود ہیں ،پاکستان میں دور جاہلیت کی فضول رسومات کے خاتمے کے لئے سخت تغریری اقدامات کی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح قبل اسلام بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ گاڑ نے یا ہندووں میں شوہروں کی موت کے بعد اس کی چتا میں بیوی کو زندہ جلا دینے کی رسم کے خاتمے کے لئے برتی گئی تھی ، طاقت بہترین دلوں کو نشہ چڑھا دیتی ہے جیسے شراب بہترین دماغوں کو خراب کرتی ہے دینا میں کوئی ایسا اچھا انسان نہیں جسے لا محدود اختیارات دے دئے جائیں اور وہ بدمست نہ ہو لا محدود اختیارات اچھے سے اچھے اور خرد مند سے خرد مند انسان کا دماغ خراب کر دیتے ہیں، عہدہ امتحان ہوتا ہے آسائش نہیں اختیار عزت ضرور دیتا ہے مگر یہ بہت ہی مشکل آزمائش بنتا ہے کہ اللہ اور عوام کے اعتماد و اعتبار کی امانت ہے اختیار عہدہ سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ہوتا ہے ذاتی جاہ و جلال ، مفاد کے لیے نہیں عہدہ تو جائے عجز و انکسار سے نہ کہ تکبر و افتخار سے ،عہدہ مشکل امتحان ہے جس میں کامیابی کے لیے اللہ سے آہ و فغاں کے ساتھ دعا کی ضرورت ہوتی ہے شاہ دمانی و مسرت کی نہیں بعض شخصیات اور شاہکار ایسے ہوتے ہیں جن پرقمطرازی خاصا مشکل اور کٹھن کام ہوتا ہے یہ پاک سر زمین بہت زرخیز ہے اس دھرتی نے ایسے ایسے سپوتوں کو جنم دیا ہے کہ جو نہ صرف ستاروں پر کمند بلکہ تسخیر کائنات کی صلاحیت رکتھے ہیں عسکری شعبہ ہو یاسول ہمارے جرات مندوں اور جانبازوں نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں جس پر ملک اور پوری دنیا خراج تحسین پیش کرتی ہے جس میں آئی جی اسلام آباد طارق مسعود یسین ہیں آئندہ اس پر لکھا جائے گا ۔۔یہ پاکستانی جن کی محنت،عزم اور حوصلے ،فولادی ارادوں کے مالک،ہمارے جفاکش ہر مشکل گھڑی میں سینہ چاک کرکے مقابلہ کرتے ہیں اس غیور قوم نے کبھی ملک کی بقاء اور سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا ہے ۔۔۔اور مادر وطن کے دفاع کے لیے ہر پاکستانی اپنی جان ہتھیلی پر لئے پھرتا ہے ملک کی ترقی اور خوشحالی میں جہاں دوسرے شعبے مصروف عمل ہیں وہاں پولیس فورس بھی شریک ہے ،مگر گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان جناب انور ظہیر جمالی کا کہنا ہے کچی آبادیوں میں رہنے والوں افراد کی آباد کاری کے لئے ایسی ماہرین پر مشتمل کمیشن بنانے کی ہدایت کی جو کم قیمت ہاؤسنگ سیکم بنانے میں مہارت رکھتے ہوں ،ملک میں کچی آبادی کی خانہ شماری تک نہیں ہوئی ہے وزیر ریلوے لاہنوں ،دریاؤں ،اور سڑک کے کنارے آباد لوگ مر رہے ہیں ،غیر منصفانہ پالیسوں ،اور تفریق پر استوار معاشروں میں امن قائم نہیں ہو سکتا ہے ،لینڈ مافیا نے ہر چیز پر قبضہ کر رکھا اور ادارے اس کے آلہ کار بن گئے ہیں ،بلوچستان کی ایک ایک انچ سرکاری زمین بیچ دی گئی ہے ،وفاقی درالحکومت میں سی ڈی اے کی ملی بھگت سے لینڈ مافیا کا قبضہ ہے ،حکومت جان بوجھ کر مافیا گھسا بیٹھا ہے ،ایسے میں ہمیں بھی خود آگاہی سے کام لینا ہو گا پرنٹ میڈیا اور ہم کالم نگاروں نے بھی اپنا فرض ادا کرنا ہو گا۔