مجھے جتنا دکھ سبین محمود کی شہادت کا ہے، اس سے کہیں زیادہ افسوس ان پاکستانیوں پہ ہے جو بےحس ہوچکے ہیں اور ایک قتل کو جائز قرار دے رہے ہیں- ہمارے لوگوں کی کُند ذہنی اور بےحسی کی کافی وجوہات ہیں لیکن اصل وجہ ہمارا تعلیمی نصاب ہے جس میں قتل و قتال کو فخریہ انداز میں پیش کیا گیا ہے- قتل مذہب کے نام پر ہو، عزت کے نام پر ہو، ذاتی لڑائی کا نتیجہ ہو یا وجہ انا کو ٹھیس پنہچنا ہو; کسی صورت میں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا- لیکن ہمارے سادہ لوح لوگ مذہب کے نام پر اور انا کو ٹھیس پنہچنے کی صورت میں ہونے والے قتل کو جائز سمجھتے ہیں اور مسرت کا اظہار بھی کرتے ہیں- نزول اسلام سے قبل حاملہ عورت پر شرط لگی جاتی تھی کہ اسکے پیٹ میں بیٹا ہے یا بیٹی،پھر پیٹ چاک کر کے دیکھا جاتا تھا-ہم میں اوران میں کوئی فرق؟ جسطرح کی ہمارے سوچ بن چکی ہے ہم مذہبی، تعلیمی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی لحاظ سے دن بدن پیچھے جارہے ہیں-ہمیں خود کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے- جب تک ہمارے اندرغلط کوغلط کہنے کی اخلاقی جرأت نہیں آجاتی، ہمارے لئے حالات بدلنے کی تمنا آسمان کی طرف منہ کرکے تھوکنے کی مانند ہوگا- اگر ہماری سوچ یہی رہی تو وہ دن دور نہیں جب ہر گھر اور ہر گلی میں لاش پڑے ملے گی- تب نا کوئی سوگ منانے والا ہوگا اور نا کوئی مذمت کرنے والا-