ہمارے بارے میں کچھ خصوصی سیریز گذشتہ سے پیوستہ ویڈیو مضمون بھیجئے 'عزّت کے نام پر قتل' میں عزّت والی کوئی بات نہیں از راشہ دیودار 29 جولا‏‏‏‏‏‏ئ 2011 قاہرہ: عرب ممالک خصوصاً مِصر اور تیونس میں جمہوریت کے لئے ہونے والے مظاہروں میں خواتین کی موجودگی بہت واضح رہی ہے۔ تاہم انہیں اب بھی کئی مشکلات کا سامنا ہے جن میں سے بہت سوں پر سٹاک ہوم میں مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں رائے عامہ تشکیل دینے والی شخصیات کے لئے منعقدہ تربیتی پروگرام میں سیر حاصل بحث ہوئی۔ قاہرہ سے آنے والی صحافی کے طور پر مجھے مشرقِ وسطیٰ اور سویڈن سے آنے والے مختلف لوگوں سے ملاقات کرنے اور یہ جاننے کا موقع ملا کہ خواتین کو مختلف حوالوں سے کس قسم کے حالات درپیش ہیں۔ خواتین کو آج جن اہم مسائل کا سامنا ہے ان میں سے ایک 'عزّت کے نام پر قتل' ہے۔ دنیا بھر میں بہت سی عورتیں اپنے مرد رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل ہو چُکی ہیں کیونکہ انہوں نے 'ناقابلِ قبول' تعلقات قائم کرکے اپنے خاندان کی 'بے عزّتی' کی تھی۔ جب 'بے عزّتی' کی بات ہوتی ہے تو ذہن میں عموماً شادی کے بغیر جنسی تعلقات رکھنے کا تصوّر ہی آتا ہے لیکن اس زمرے میں کِسی دوسرے مذہب یا فرقے بلکہ یہاں تک کہ کِسی ایسے آدمی سے شادی کرنا بھی شامل ہو سکتا ہے جو خاندان والوں کو پسند نہ ہو۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ'عزّت کے نام پر جرائم' عورتوں کے بارے میں منفی رویّوں کے علاوہ بنیادی طور پر اس لئے جاری ہیں کہ اس سلسلے میں مؤثر قوانین موجود نہیں ہیں اور جو قوانین موجود ہیں انہیں صحیح طرح نافذ نہیں کیا جاتا۔ لیکن آہستہ آہستہ حکومتیں اس صورت حال کو درست کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ خبر رساں ادارے 'معان' کے مطابق مئی میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے 'عزّت کے نام پر قتل' کے موجودہ قانون میں ایک ترمیم کرنے کا حُکم جاری کیا تھا جس کے تحت 'خاندان کی عزّت کے دفاع میں' میں جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ اب کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔ یہ فیصلہ معان نیوز ایجنسی کی طرف سے ہیبرون کی 20 سالہ خاتون آیہ برادیہ کے قتل کو منظرِ عام پر لانے کے بعد کیا گیا تھا جسے اس کے چچا نے پانی میں ڈبو کر مار ڈالا تھا کیونکہ اُسے وہ شخص پسند نہیں تھا جسے آیہ نے شادی کے لئے منتخب کیا تھا۔ اس سے پہلے 2009 میں شامی صدر بشار الاسد نے بھی تعزیراتِ شام کی ایک دفعہ میں ترمیم کرکے عزّت کے نام پر جرائم کی سزاؤں کو مزید سخت کیا تھا۔ قبلِ ازیں تعزیراتِ شام کی دفعہ 548 میں یہ درج تھا کہ غیرت کے نام پر جُرم کا ارتکاب کرنے والے کو عُمر، ذہنی استعداد اور دیگر عوامل کی بنیاد پر سزا میں رعایت دی جاسکتی ہے۔ تاہم ترمیم شُدہ دفعہ میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ’خاندان کی عزّت‘ کے نام پر قتل کی سزا دو سال قید سے کم نہیں ہو گی۔ جنوری 2011 میں دفعہ 548 میں دوبارہ ترمیم کی گئی اور اب اس سزا کو دو سال سے بڑھا کر 5 تا 7 سال کر دیا گیا ہے۔ تاہم شام میں حقوقِ نسواں کے کام کرنے والی ایک اہم تنظیم ’شامی خواتین آبزرویٹری (ایس ڈبلیو او) کی ڈائریکٹر بسام القاضی کا کہنا ہے کہ "اس شِق میں ترمیم نہیں بلکہ اسے منسوخ کرنا چاہیے"۔ ان کی یہ رائے خواتین کے حقوق کے بہت سے ایکٹوسٹوں کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے جن کا خیال ہے کہ یہ سزا زیادہ سخت نہیں ہے۔ بہت سے افراد اور ادارے ان جرائم کو ختم کرنے کے لئے سرگرمِ عمل ہیں۔ اس قسم کے فعل پر خاموشی کو توڑنا ان کے سب سے اہم طریقوں میں سے ایک ہے۔ اردن کی صحافی اور ایکٹوسٹ رَنا الحسینی کی 2009 میں شائع ہونے والی کتاب 'عزّت کے نام پر قتل' ایسی ہی ایک کوشش ہے جس کا مقصد ان واقعات کی ہولناکی کے بارے میں لوگوں کی آگہی میں اضافہ کرنا ہے۔ یہ کتاب عورتوں پر تشدد کی کہانیوں کو بے نقاب کرنے کے لئے الحسینی کے 15 برسوں پر محیط کام پر مبنی ہے اور اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ یہ رجحان صرف عرب یا مُسلم کمیونٹیز میں نہیں پایا جاتا بلکہ ایک عالمی وبا ہے۔ مصری خواتین کی قانونی معاونت کے مرکز (سی ای ڈبلیو ایل اے) نے چار سال پہلے بالائی مِصر کے چار صوبوں میں ایک منصوبے کا آغاز کیا تھا۔ اس گروپ نے عزّت کے نام پر ہونے والے جرائم کے گرد چھائی ’چُپ‘ توڑنے کے لئے مقامی ریڈیو پر پروگرام اور مختلف سرگرمیاں شروع کی تھیں جن میں سامعین فون کرکے سوال پوچھ سکتے تھے اور اپنی کہانیوں سے دوسروں کو آگاہ کر سکتے ہیں۔ فیس بُک کے ایک گروپ 'جُرم میں کوئی عزّت نہیں' بھی اس موضوع پر آگہی میں اضافہ کرنے کے لئے کام کر رہا ہے اور ایسے مثبت اقدامات پر بحث کرتا ہے جن سے غیرت کے نام پر جرائم کا سدّباب کیا جا سکتا ہے۔ اُردن کے اس گروپ نے جو دنیا کے تمام ممالک میں موجود عرب ایکٹوسٹوں سے رابطہ کرتا ہے، غیرت اور انسانی حقوق پر توجہ دینے کی بجائے ’عزّت‘ کے تصوّر پر بحث کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسی جگہیں تخلیق کرکے جہاں 'عزّت' پر بحیثیت ایک تصوّر بحث کی جاتی ہے، شرکا کو عزّت وحرمت کے بارے میں اپنی تفہیم کو منطق اور استدلال پر پرکھنے کے لئے پیش کرنا اور یُوں اس موضوع پر زیادہ ناقدانہ رویّہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اس گروپ کا مشن یہ بن گیا ہے کہ 'عزت وحرمت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے سارے معاشرے میں اس پر گفتگو کی جائے۔' لیکن عورتوں کی زندگیوں میں ایک اور ایسا عامل ہے جس کا اثر سب سے گہرا ہو سکتا ہے۔ ستمبر 2005 میں جاری ہونے والی پاپولیشن ریفرنس بیورو رپورٹ کے مطابق عرب خواتین بالخصوص مِصر، اُردن، لبنان اور فلسطین میں رہنے والی عورتوں میں تعلیم کی سطح ان کے شوہروں کے برابر یا اُن سے بلند ہے۔ خواتین تیزی سے زیادہ تعلیم یافتہ ہو رہی ہیں اور معلومات کا حصول بااختیاری کا ایک اہم وسیلہ ہے کیونکہ تعلیم خواتین کو کام کرنے اور مالی طور پر خود مختار بننے کے مزید مواقع فراہم کرے گی۔ اس کے نتیجے میں آئندہ چند سال کے دوران مزید خواتین ایسے قوانین کا مطالبہ کر سکتی ہیں جن سے ان کے حقوق کا تحفظ ہو سکے جب کہ بہت سے ممالک کا مزید پالیسیاں وضع کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ خواتین کی بات غور سے سُن رہے ہیں۔ راشہ دیودار مِصر کی ایک فری لانس صحافی ہیں جو مشرقِ وسطیٰ، صنفی موضوعات اور سائنس سے متعلق معاملات میں خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں۔ یہ مضمون کامن گراؤنڈ نیوز سروس (سی جی نیوز) کے لئے لکھا گیا ہے۔ ماخذ: کامن گراؤنڈ نیوز سروس (سی جی نیوز) 29 جولائی 2011 www.commongroundnews.org اس مضمون کی اشاعت کے لئے کاپی رایٹ کی اجازت حاصل کی جاچکی ہے۔ اس ہفتے کی ویڈیو اس ویڈیو میں کامن گراؤنڈ نیوز سروس کی ٹیم رواں سال کا الحبری پیس ایجوکیشن پرائز (El-Hibri Peace Education Prize) جیتنے والی خواتین ڈاکٹر بیٹی ریئرڈن اور ہیگ اپیل فار پیس (Hague Appeal for Peace) نامی تنظیم کی صدر ان کی دوست کورا ویس کے ساتھ معماران امن کی اگلی نسل کے لئے رہنمائی کے حصول اور یہ جاننے کی خاطر نشست کرتی ہے کہ ایک عام آدمی قیام امن کے لئے کیا کر سکتا ہے۔ "کامن گراونڈ نیوز سروس ۔شرق اوسط کے مضامین یہ امید دلاتے ہیں کہ ایسے لوگ موجود ہیں جو تحمل اوربقائے باہمی کی ضرورت اور اچھے مستقبل کی امید کے ساتھ مسائل کے حل پر کا م کرتے ہیں." - کرسٹوفر پیٹن، سابق کمشنر برائے خارجہ تعلقات ،یورپی کمیشن کرمالی