غیرت کے نام پر قتل غیرت کے نام پر قتل غیرت کےنام پر قتل کرنے کا دستور بہت قدیم ہے ۔اکیسویں صدی میں اس طرح کے غیرت کے نام پر قتل گردانا جاتا ہے۔ صوبہ سندھ میں اسے کارو کاری کہلاتی ہے، خواتین اور غریب مردوں کو "غیرت” کے نام پر قتل کرنا جنوبی ایشیاءبھر میں صدیوں فاﺅنڈیشن کا کہنا ہے کہ 2008 سے اب تک "غیرت” کے نام پر تین ہزار سے زائد قتل بھی غیرت کے زمرے یا جذبات میں آکر قتل کرنا جیسا کہ بقول ہمارے قانون Sudden بنا پر عزت یا غیرت کے نام پر قتل کا کوئی جواز نہ بنتا ہے۔ تقریباً 200 سے زیادہ خواتین مذہبی علماء نے کہا ہے کہ عزت کے نام پر قتل کی بہن، بیٹی یا کسی دوسری خاتون کو عزت کے نام پر قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ کانفرنس یا کسی دوسری خاتون کو عزت کے نام پر قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ خیبر پختونحوا میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں سال 2013 کی نسبت سال 2014 میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔ سال 2013 میں صوبہ بھر میں غیرت کے نام پر قتل کے میں سینیٹ نے متفقہ طور پر جس میں غیرت کے نام قتل کو ناقابل راضی نامہ جرم بنانے کا غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل راضی نامہ جرم بنانے کے لیے بل میں کوڈ آف کرمنل بل کی منظوری کے بعد رابطہ کرنے پر صغریٰ امام نے بتایا کہ غیرت کے نام قتل کے بل کے مطابق ” غیرت کے نام پر قتل پاکستان بھر میں عام ہیں اور ہر سال اس کے یا وہ مرد جو خواتین کے ساتھ غیرت کے نام پر قتل ہوئے، موجودہ قوانین میں موجود